حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ایام فاطمیہ کی مناسبت سے ہندوستان کی ریاست آندھراپردیش کے مختلف علاقے میں حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سیدشمع محمدرضوی نے علمی نشست اور مجالس کے سلسلے محبان فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خطاب کرتے ہوئے حضرت فاطمہ زھرا (س)ایک مثالی خواتین کے عنوان سے لوگوں کو متعارف کروایا۔
راہ خدا میں انفاق
ایک روز جناب سلمان فارسی ،حضرت رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کے فرمان کے مطابق ایک تازہ مسلمان ہونے والے شخص کے لئے کھانا لینے کے لئے جناب فاطمہ زہرا سلام الله علیھا کے بیت الشرف گئے، جناب سلمان کی درخواست کے بعد جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: خدا کی قسم بھوک کی وجہ سے حسن و حسین (علیھما السلام) کانپ رہے تھے اور بھوکے پیٹ سوگئے ہیں، لیکن ایسے عالم میں بھی کسی سائل کو واپس نہیں کرتی مخصوصاً جو میرے دروازہ پر آگیا ہو۔اور پھر فرمایا: اے سلمان! یہ میرا پیراھن ”شمعون یہودی“ کے یہاں لے جاؤ اور ایک صاع خرما اور ایک صاع جو اس سے ہوسکےلے کر آ،چنانچہ جناب سلمان نے وہ پیراھن لیااور شمعون کے پاس لے گئے، واقعہ بیان کیا، (واقعہ سن کر) شمعون کی آنکھوں سے اشک جاری ھوگئے اور اس نے کہا: یہ ہے دنیا کا زہد، اور اسی چیز کی خبر جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے توریت میں دی ہے، لہٰذا میں بھی کہتا گواہی دیتا ہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبود نھیں اور محمد ( (صلی الله علیه و آله و سلم) ) الله کے رسول ہیں ”اشھد اٴن لا إلہ إلاَّ الله و اٴن محمّداً رسول اللہ چنانچہ اس کے اسلام لانے کے بعد ایک صاع خرما اور ایک صاع جو جناب سلمان کو دئے اور وہ جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی خدمت میں لے کر آئے، اور بی بی نے اپنے ہاتھوں سے آٹا پیسا اور اس کی روٹی بناکر جناب سلمان کو دی، جناب سلمان نے کہا: اے بنت رسول! اس میں سے کچھ مقدار روٹی اور خرما حسن و حسین (علیھما السلام) کے لئے رکھ لیجئے، جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: جس چیز کو راہ خدا میں دیدیا ہے اس میں سے استعمال نہیں ادانہیں کرسکتی!]ایک عورت جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی خدمت میں مشرف ہوئی اور اس نے کہا: میری ماں بہت زیادہ بوڑھی اور ضعیف ہے جو نماز میں بہت زیادہ غلطی کرتی ھے، مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ سے سوال کروں کہ وہ کس طرح نماز پڑھے؟ جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: جو کچھ بھی سوال کرنا چاہے سوال کرلے۔چنانچہ اس عورت نے اپنے سوالات بیان کئے یہاں تک کہ نوبت دسویں سوال تک پہنچ گئی اور بی بی ہرسوال کا جواب کُشادہ دلی سے دیتی رہیں، لیکن وہ عورت سوالات کی کثرت کی وجہ سے شرمندہ ہوگئی اور اس نے کہا: میں آپ کو اس سے زیادہ زحمت میں نہیں ڈالوں گی! جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: پھر بھی سوال کر، اور اس عورت کی تسکین خاطر کے لئے فرمایا: اگر کوئی شخص کسی کو کام دے مثال کے طور پر اس سے کہے کہ یہ بھاری وزن کسی اونچی جگہ پر پہنچا دے اور اس کام کے بدلے تمہیں ایک لاکھ دینار انعام ملے گا تو کیا وہ شخص اس انعام کے پیش نظر اس کام میں تھکن کا احساس کرے گا؟ اس عورت نے جواب دیا: نہیں، جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: میں ہر سوال کے جواب میں خداوندعالم سے اس سے کہیں زیادہ جزا حاصل کرتی ہوں اور ھرگز ملول نہیں ہوتی اور تھکن کا احساس نہیں کرتی، میں نے رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) سے سنا ہے کہ قیامت کے دن جب اہل علم خداوندعالم کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو اپنے علم و دانش اور کوشش جو انہوں نے لوگوں کی تعلیم اور ہدایت کے لئے کی ہے، اس کے برابر اپنے خدا سے جزا حاصل کریں گے۔
مناجات اور گریہ زاری!
جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کی رات بھر کی مناجات اور با سوز گریہ و زاری کبھی کبھی آپ کے فرزند کو نیند سے بیدار کردیا کرتی تھیں، امام حسن علیہ السلام کہتے ہیں: میں نے شب جمعہ اپنی والدہ گرامی کو دیکھا کہ محراب عبادت میں کھڑی ھوئی ہیں اور طلوع فجر تک رکوع و سجود کے عالم میں ہیں اور سب کے لئے دعا کرتی ہیں مگر اپنے لئے نہیں! میں نے عرض کی:اے مادر عزیز! کیوں اپنے لئے کوئی دعا نھیں کی ہے؟ تو جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا نے فرمایا: اے بیٹا! پہلے پڑوسی بعد میں خود۔
جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا اپنے فرزند کو بہت زیادہ رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) کی یاد دلاتی تھیں اور اپنے والد گرامی کی سفارش کی بنا پر بچوں کو پھولوں کا گلدستہ شمار کرتی تھیں اور قرآن و دعا کی تعلیم کے لئے پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں بھیجا کرتی تھیں۔
قرآن سے محبت اور انسیت
حضرت رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم)کی لخت جگر قرآن مجید سے بہت زیادہ اُنس و محبت رکھتی تھی، جناب سلمان کہتے ہیں: پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نے مجھے کسی کام کے لئے جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے گھر بھیجا، چنانچہ میں فوراً بی بی کے دروازہ پر پہنچ گیا اور سلام کیا، میں نے سنا کہ جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا قرآن کی تلاوت کر رہی ہیں، اور چکّی چل رہی ہے اور کوئی بھی آپ کے پاس نھیں ۔
بابرکت گردن بند!
جناب جابر بن عبد الله انصاری سے روایت ہے کہ: پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نماز عصر کے بعد محراب میں لوگوں کی طرف رخ کئے تشریف فرما تھے اور اصحاب آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، چنانچہ اس موقع پر مہاجرین میں سے ایک بوڑھا شخص پُرانا لباس پہنےہوئے حاضر ہوا جو کمزوری اور ناتوانی کی وجہ سے اپنے پیروں پر کھڑا نھیں ہوسکتا تھا، آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے اس کی احوال پرسی کی اور محبت کے ساتھ پیش آئے، اس ضعیف نے کہایا رسول الله ! میں بھوکا ہوں ، مجھے سیر کردیجئے ، میں برہنہ ہوں مجھے لباس عطا کیجئے، میں غریب و نادار ہوں، میری فریاد کو پہنچئے
رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: (افسوس کہ )اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ تم کو دوں، میں تمہیں خیر کی طرف راہنمائی کرتا ہوں اس شخص کی طرح جس نے تمھارے ساتھ خیر و نیکی کی ہو، لیکن تم کو ایسے گھر کی طرف بھیجتا ھوں کہ جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتی ھے اور خداو رسول بھی اس کو دوست رکھتے ھیں، اور وہ اپنے اوپر خدا کو ترجیح دیتی ھے، جاؤ فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کے مکان پر جاؤ! اور فرمایا: اے بلال! اس شخص کو فاطمہ (سلام الله علیھا) کے گھر تک پھنچادو۔
وہ بوڑھا شخص جناب بلال کے ساتھ روانہ ھوا، اور جب جناب فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے دروازے پر پھنچا تو اس نے بلند آواز میں کہا:
”السَّلامُ عَلَیْکُمْ یَااٴَھْلَ بَیْتِ النَّبُوَّةِ، وَمُخْتَلَفَ الْمَلائِکَةِ، وَمَھْبِطَ جِبْرِئیْلَ الرُّوحِ الاٴَمیْنِ بِالتَّنْزیلِ مِنْ عِنْدِ رَبِّ العالمینَ“۔
”درود و سلام ھو تم ایک اھل بیت نبوت، فرشتوں کے آمد و رفت کے محل، جبرئیل کے نازل ہونے کی جگہ، روح امین جو خداوندعالم کی طرف سے قرآن مجید لے کر نازل ہوتے ھیں“۔جناب فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا: نے جواب دیا: ”و عَلیکَ السّلامُ“، تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا: ایک بادیہ نشین بوڑھا شخص، بہت دور سے آپ کے والد گرامی جو تمام انسانوں کے سید و سردار ہیں کے پاس آیا تھا، اور اے بنت محمد! میں بھوکا اور بے لباس ہوں، مجھ پر محبت کریں، خداوندعالم آپ پر رحمت نازل کرے۔اس وقت تین روز گزر چکے تھے کہ حضرت رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم)،علی مرتضی، و فاطمہ زھرا (سلام الله علیہا) نے کچھ نہ کھایا تھا اور رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) بھی ان حالات سے باخبر تھے۔حضرت فاطمہ بھی گھر میں کچھ نہ رکھتی تھیں فقط ایک گوسفند کی کھال تھی کہ جس پر رات کو حضرت امام حسن واما م حسین سوتے تھے اس پوست کو اٹھا یا اور بوڑھے کو عطا کیا اور فرمایا: اس کولے لو، خداوند عالم تمہیں اس سے بہتر عنایت کرےگا ۔
بوڑھے نے کھال کو دیکھا اور پھر عرض کیا: اے بنت رسول! میں اپنی بھوک کا شکوہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، اور آپ یہ گوسفند کی کھال عطا کر رہی ہیں! میری بھوک میں یہ پوست کام نہ آئے گی !
جب بی بی نے اس کی باتوں کو سنا تو حضرت حمزہ کی بیٹی نے جو ہار آپ کو ہدیہ دیا تھا اپنی گردن سے نکالا اور بوڑھے شخص کو عنایت کردیا، اور فرمایا: اس گردن بند کو لے جا اور جاکر فروخت کردے، خداوندعالم تجھے اس سے بہتر عطا کرے گا۔بوڑھا شخص وہ ہارلے کر پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں مسجد میں آیا، آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) اس وقت تک مسجد میں تشریف فرما تھے، اور اس بوڑھے شخص نے کہا: یا رسول الله! آپ کی لخت جگر جناب فاطمہ (سلام الله علیھا) نے یہ ہار مجھے عنایت کیا اور فرمایا ہے کہ اس کو فروخت کردے، امید ہے کہ خداوندعالم تیری حالت کو بدل دے۔
یہ سن کر پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) رونے لگے اور فرمایا: کس طرح تیری حالت نہ بدلے گی جبکہ فاطمہ بنت محمد (صلی الله علیه و آله و سلم) جو سیدہٴ نساء العالمین ہیں تجھے اپنا ہار عطا کیا ہے،عمار یاسر اپنی جگہ سے کھڑے ھوئے اور کہا: یا رسول الله! کیا مجھے اجازت ہے کہ میں اس ہار کو خریدوں؟ آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: تم اس کو خرید لو کہ اگر جن و انس اس ہار کی خریداری میں شریک ہوں تو خداوندعالم ان کو آتش جھنم میں نہیں جلائے گا۔
جناب عمار نے کہا: اے برادر عرب! کتنے میں فروخت کرتے ھو؟ اس نے کہا: ایک نان و گوشت کی شکم سیر غذا، ایک بُرد یمانی جس سے اپنے بدن کو ڈھانپ لوںاور اپنے پروردگار کی نماز بجا لاسکوں اور ایک دینار جس سے میں اپنے گھر تک واپس ہوجاؤں۔
اس موقع پر جناب عمار نے کہ جن کوجنگ خیبر کی غنیمت ملی تھی لیکن اس کو فروخت کرچکے تھے اس شخص سے کہا: بیس دینار، دو سود رھم، ایک بُرد یمانی اور اپنی سواری تجھے دیتا ھوں تاکہ تو اپنے اھل و عیال تک پہنچ جائے اور گندم اور گوشت سے سیراب کرتا ھوں، اس اعرابی نے کہا: اے مرد! تو کتنا سخی اور کریم ہے، اس کے بعد وہ جناب عمار کے ساتھ گیا اور جناب عمار نے اپنے وعدہ کے مطابق وہ چیزیں اس کو دیدیں۔
اعرابی پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے اس سے سوال کیا: کیا تم شکم سیر ھوگئے ھو اور تمھیں لباس مل گیا ھے؟ اس شخص نے کھا: جی ہاں، (میرے ماں باپ آپ پر قربان ھوں) میں بے نیاز ہوگیا ہوں، اس وقت آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: پس جناب فاطمہ (سلام الله علیھا) کے کام کی جزا کیا ہے؟ اس اعرابی نے کہا: پروردگارا! تو خدا ہے، ہم تجھے حادث نہیں مانتے اور تیرے علاوہ کسی کو معبود قرار نہیں دیتے، تو بحر حال ہمیں روزی دینے والا ہے، خداوندا! فاطمہ زہرا کو ایسی چیز عطا کر کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھی ھو اور نہ کسی کان نے سنی ھو۔حضرت رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) نے اس کی دعا پر آمین کہی، اور اپنے اصحاب کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا: خداوندعالم نے فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کو یہ چیزیں عطا کی ہیں: میں ان کا پدر ہوں، اور دونوں عالم میں مجھ جیسا کوئی نہیں ہے، اور علی (علیہ السلام) ان کے شوہر ہیں، اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کے لئے کوئی کفو نہ ہوتا، اور ان کو حسن و حسین (علیھما ا لسلام)جیسے فرزند عطا کئے کہ دونوں عالم میں پیغمبر کے دو نواسے اور اھل جنت کے سردار کی طرح کوئی نھیں ہے۔
پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کے سامنے جناب مقداد، جناب عمار اور جناب سلمان بیٹھے ہوئے تھے، آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: کیا فاطمہ زہرا (سلام الله علیھا) کے اور بھی فضائل بیان کروں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں یا رسول الله! آنحضرت(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: میرے پاس جناب جبرئیل روح الامین آئے اور مجھ سے کہا: جس وقت جناب فاطمہ (سلام الله علیھا) کی روح قبض ہوگی اور دفن ہوجائیں گی، اس وقت دو فرشتے ان کی قبر میں آئیں گے اور سوال کریں گے: آپ کاپروردگار کون ہے؟ جواب دیں گی: الله، اس کے بعد سوال کریں گے: آپ کے نبی کون ہیں؟ جواب دیں گی: میرے والد گرامی، سوال کریں گے: تمہارا ولی (امام) کون ہے؟ جواب دیں گی:یہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) جو میری قبر کے پاس کھڑے ہیں، میرے امام ہیں۔آگاہ رہو کہ قبل اس کے کہ تمہارے سامنے فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کی فضیلت بیان کروں، بے شک خداوندعالم نے فرشتوں کے ایک گروہ کو حکم دیا کہ ھر طرف سے ان کی حفاظت کریں اور وہ زندگی اور قبر اور وفات کے وقت ان کے ساتھ رھیں اور ھمیشہ ان پر ان کے والد، ان کے شوھر اور ان کے فرزندوں پر درود و سلام بھیجتے ہیں، پس جو شخص میری وفات کے بعد میری زیارت کے لئے آئے گویا اس نے میری زندگی میں زیارت کی ھے، اور جس نے فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی ھے، اور جس شخص نے حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کی زیارت کی اس نے گویا فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کی زیارت کی ہے، اور جس شخص نے حسن و حسین (علیھما السلام) کی زیارت کی گویا اس نے علی (علیہ السلام) کی زیارت کی ھے، اور جس نے ان دونوں کی ذریت کی زیارت کی ھے گویا اس نے ان دونوں کی زیارت کی ھے۔
جناب عمار نے یہ فضائل سن کر اس ہار کو اٹھایا اور مُشک سے معطر کیا اور بُرد یمانی میں رکھ کر اپنے غلام کو دیا او رکہا: یہ ہار پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں لے جا اور (آج سے ) تو انہیں کا غلام بن جا۔
چنانچہ غلام نے اس ہار کو اٹھایا اور پیغمبر خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوگیا، اور عمار کے قول کو بیان کیا، رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: یہ ہار فاطمہ زہرا (سلام الله علیھا) کی خدمت میں لے جا اور تو بھی ان کا غلام ہے۔غلام نے وہ ہار لیا اور جناب فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) کی خدمت میں حاضر ہوا، اور رسول اکرم کا قول نقل کیا، جناب فاطمہ زھرا (سلام الله علیھا) نے وہ ہار لے لیا اور اس غلام کو خدا کی راہ میں آزاد کردیا۔
غلام کو ہنسی آگئی !بی بی دو عالم نے سوال کیا: مسکراتے کیوں ہو؟ غلام نے کہا: مجھے اس ہار کی برکت پر خوشی ہوتی ہے، ایک بھوکے کو سیراب کردیا، ایک برہنہ کو لباس پہنا دیا، ایک غریب کو مالدار کردیا اور ایک غلام کو آزاد کردیا اور سر انجام وہ بابرکت ہار اپنے مالک کی طرف لوٹ آیا۔